تصور سے بھی آگے تک در و دیوار کُھل جائیں
مری آنکھوں پہ بھی یارب ترے اسرارکُھل جائیں

میں تیری رØ+متوں Ú©Û’ ہاتھ Û”Û” خود Ú©Ùˆ بیچنے Ù„Ú¯ÙˆÚº
مری تنہائیوں میں عشق کے بازار کُھل جائیں

جوارِ عرشِ اعظم اس قدر مجھ کو عطا کردے
مرے اندر کے غاروں پر ترے انوارکُھل جائیں

اتاروں معرفت کی ناؤ جب تیرے سمندر میں
تو مجھ پر بادبانوں Ú©ÛŒ طرØ+ منجدھار کُھل جائیں

اندھیروں میں بھی تو اتنا نظر آنے لگے مجھ کو
کہ سناٹے بھی ۔۔۔ مانندِ لبِ اظہار کُھل جائیں

مرے مالک مرے Ø+رفِ دعا Ú©ÛŒ لاج رکھ لینا
ملے توبہ کو رستہ ۔۔ بابِ استغفار کُھل جائيں


مظفرؔ وارثی کی اس قدر ۔۔ تجھ تک رسائی ہو
کہ اس کے ذہن پر سب معنیٔ افکار کُھل جائیں